افسانہ: پس منظر و پیش منظر … ڈاکٹر سلیم اختر

افسانہ نگاری کے کسی بھی نوع کے مطالعہ کے ضمن میں اس اساسی سوال کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ کیا افسانہ کے ارتقائی مدارج کا مطالعہ معروف افسانہ نگاروں کے انفرادی فن کے حوالہ سے مفید ثابت ہو گا کہ اس کے برعکس افسانہ نگاری کے انداز اور اسلوب میں تغیرات کا موجب بننے والے رجحانات کا تجزیہ و تحلیل زیادہ ضروری ہے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ سب سے پہلے ان رجحانات و میلانات کا تعین زیادہ ضروری ہے جو افسانہ نگاروں کو مروج اور خصوصی انداز تبدیل کرنے کے لیے محرک بن جاتے ہیں۔ جہاں تک رجحانات، میلانات اور ان کی باہمی اثرانگیزی کا تعلق ہے تو یہ سب معاشرہ میں کارفرما اجتماعی رویوں، اقتصادی صورت حال، روحانی اقدار، تہذیبی عناصر، ثقافتی ترجیحات، ٹیبوز اور متعدد دیگر عوامل و محرکات سے مشروط ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ان داخلی تضادات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جو ہر معاشرہ میں پائے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ داخلی تضادات لہر درلہر اور دائرہ در دائرہ ہوتے ہیں۔ پرسکون اور عدم تناؤ والے معاشرہ میں داخلی تضادات زیادہ فعال نہیں ہوتے لیکن ہمارے پُر تناؤ معاشرہ میں یہ نسبتاً زیادہ فعال اور انتہا پسندی کی صورت میں تو زیادہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، وافر مثالیں پیش کرنے کے لیے اپنا معاشرہ ہی کافی ہے۔
معاشرہ کی اجتماعی صورت حال سے مرتب ہونے والا ”گیسٹالٹ“ ہی وہ تناظر ہے جس میں افسانہ نگاری سمیت دیگر تخلیقی اصناف کا تجزیہ و تحلیل ہونی چاہیے۔
اردو افسانہ کی صدی، افسانہ نگاری کے حوالہ سے ثمرمند قرار دی جا سکتی ہے۔ معروف افسانہ نگاروں کے تابندہ اسماءکی ایسی کہکشاں ملتی ہے جو فنِ افسانہ نگاری کے کڑے سے کڑے معیار پر بھی ”کم عیار“ نہ ثابت ہو گی۔ نہ جانے یہ ادوار بندی درست ہے یا نہیں لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ افسانہ نگاری کے بدلتے رجحانات، میلانات اور انداز و اسلوب کے تجربات کے لحاظ سے افسانہ نگاری کے یہ دور طے کیے جا سکتے ہیں۔ (۱) پریم چند سے آغاز کر کے ترقی پسند ادب کی تحریک (۶۳۹۱) تک اس دور میں سجاد حیدریلدرم، نیاز فتح پوری ، مجنون گورکھ پوری کے ہاں حسن کاری کا وہ اسلوب ملتا ہے جسے ”رومانیت“ کہا جاتا ہے۔
(۲) ۶۳۹۱ءسے ترقی پسند ادب کی تحریک کا آغاز ہوا جسے پاکستان میں جبراً بند کیا گیا مگر جو بھارت میں ہنوز بھی فعال اور متحرک ہے۔ ترقی پسند ادب کی تحریک آزادی، احتجاج، ٹیبو شکنی، بغاوت اور ادب برائے زندگی کی تحریک تھی ”انگارے“ (۶۳۹۱) کے افسانے فنی لحاظ سے اتنے جاندار نہ تھے جتنا توانا ان کا احتجاج تھا اور دیکھا جائے تو اردو افسانہ کے بڑے رجحان ساز اور اسلوب گر افسانہ نگار اسی تحریک سے وابستہ تھے۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، یہ محض چند نام نہیں بلکہ افسانہ کے ارتقا کی کڑیاں ہیں۔ ان کے متوازی ممتاز مفتی، محمد حسن عسکری، غلام عباس، ممتاز شیریں، بانو قدسیہ، اشفاق احمد ہیں جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں زندگی کی موثر ترجمانی کرتے ہوئے اردو افسانہ کو ثروت مند بنایا۔
(۳) انتظار حسین، انور سجاد، عبداللہ حسین، خالدہ حسین، محمد منشا یاد، اسد محمد خاں سے وہ دور شروع ہوتا ہے جسے بالعموم علامت اور تجرید سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس امر کے باوجود کہ سبھی نہ تو علامت نگار تھے اور نہ ہی تجرید پسند بلکہ حق تو یہ ہے کہ سب کچھ کہہ سن کر بھی ابھی تک یہ نہ طے پا سکا کہ علامت اور تجرید ہیں کیا، ہر نقاد اپنے مطالعہ کی روشنی میں علامت اور تجرید کی تعریف اور اس کی حدود طے کرتا ہے اور بہت لکھا جانے کے بعد بات اسی پر ختم ہوتی ہے کہ علامت انتظار حسین کی تخصیص ہے اور تجرید انور سجاد کی۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انور سجاد نے گزشتہ پندرہ برس سے کوئی افسانہ نہ لکھا۔
یہ جو چند نام لیے گئے تو تکنیک و اسلوب میں انفرادیت اور زندگی ، عصر اور معاشرہ کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں اتنے اختلافات ہیں کہ انہیں ایک مالا میں پرویا نہیں جا سکتا ہے۔
ادب میں دائمی شہرت کا مسئلہ بھی عجب ہے کہ کسی کو بن مانگے ملتی ہے تو کوئی عمر بھر سرسوتی کا بھگت بنا رہے مگر توجہ سے محروم رہتا ہے۔ یہاں تک لکھ پایا تھا کہ دہلی کے ”ایوان اردو“ (نومبر ۳۱۰۲) کا شمارہ ملا جس میں ڈاکٹر مبشر احمد قادری کا مقالہ ”لطف الرحمن کی تنقید افسانوں کے حوالے سے“ شائع ہوا ہے۔ جس میں مقالہ نگار کے بقول ”عابد سہیل کے رسالہ ماہنامہ ”کتاب“ (لکھنو) نے اپنے قارئین سے اردو کے افسانہ نگاروں کی مقبولیت سے متعلق ایک سروے کرایا تھا اور سروے کا جو نتیجہ سامنے آیا تھا وہ اس طرح تھا: اول کرشن چندر، دوئم راجندر سنگھ بیدی، سوئم غیاث احمد گدی اور چہارم قرةالعین حیدر“۔ ہمارے ہاں صورت حال اس سروے کے برعکس ہے۔ شاید ہی افسانہ کے بارے میں تنقیدی مقالات میں کبھی کرشن چندر یا راجندر سنگھ بیدی کا نام لیا جاتا ہو بلکہ قرةالعین حیدر صرف ناولوں کے باعث معروف ہیں۔
ہمارے ہاں اگر ایسا سروے کرایا جائے تو اول سعادت حسن منٹو اور دوئم انتظار حسین ہوں گے۔ جبکہ سوئم کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اپنی پسند کے افسانہ نگار کا نام لکھ سکتے ہیں۔
اس سروے سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار (یا کسی بھی ادیب شاعر) کی مقبولیت کا گراف عمودی سے افقی بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے حال کی شہرت (جس میں کئی غیر تخلیقی وجوہ بھی شامل ہوتی ہیں) پر اترانا بے کار ہے کہ چڑھی پتنگ ایک ثانیہ میں کاغذ کے چیتھڑے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا!
تکنیک اور اسلوب میں کچھ تجربات کے باوجود بھی بنیادی حقیقت یہی ہے کہ پریم چند سے افسانہ نگاری میں بیانیہ کا آغاز ہوا تو یہ انداز ہنوز بھی کارآمد اور اس لیے مقبول رہا ہے کہ جب علامت اور تجرید کا غلغلہ تھا تو اس کے متوازی بھی بیانیہ افسانہ لکھا جاتا رہا اور یہ کہنا غلط یا مبالغہ نہ ہو گا کہ افسانہ کے قارئین کی بیانیہ افسانہ سے جو کنڈیشننگ ہو چکی، اتنی مضبوط ہے کہ اب ڈی کنڈیشننگ آسان نہیں ہے۔ بیانیہ سے کانوں کی کنڈیشننگ محض افسانہ کے مطالعہ کے باعث نہیں ہوتی بلکہ ماں دادی نانی کے بچوں کو کہانی سنانے سے شروع ہوتی ہے۔ اس طرح نفسیاتی تحقیقات سے یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ جن بچوں نے کم سنی میں لوریاں سنی ہوتی ہیں انہیں آواز اور سُر سے نسبتاً زیادہ رغبت ہوتی ہے۔
پلاٹ، کردار، زبان (بصورت اسلوب ، مکالمات، بیانات) کو افسانہ کی اساس تصور کیا جاتا رہا ہے جو کہ غلط نہیں کہ ان ہی کے فن کارانہ استعمال سے معمولی سا واقعہ افسانہ بن جاتا ہے اور عام سا فرد افسانہ میں Larger Than Life کردار ثابت ہوتا ہے۔ افسانہ کے آغاز، واقعات کے ظہور، کرداروں کے تعارف اور ان کی کشمکش اور اس کے نتیجہ میں جنم لینے والا نقطہ¿ عروج اور بالآخر افسانہ کا اختتام یہ سب متعین اور اسی لیے طے شدہ سمجھے جاتے تھے چنانچہ افسانہ کی تشکیل کو گراف کی صورت میں یوں واضح کیا جاتا تھا۔
ج

د      ب_____ا
الف تا ب افسانے کا آغاز، کرداروں کا تعارف اور واقعات کا آغاز۔ ب تا ج کرداروں کی باہمی کشمش اور واقعات کے الجھاؤ سے جنم لینے والا نقطہ عروج (ج) اس کے بعد بتدریج افسانہ کا اختتام (د)۔
یہ گراف واحد اور قطعی نہ تھا ۔ افسانہ کے موضوع کے لحاظ سے گراف میں تبدیلیاں ہوتی رہتی تھیں جبکہ مہماتی، جاسوسی افسانوں میں ایک سے زائد نقطہ عروج بھی ہو سکتے تھے۔
افسانہ میں پلاٹ پر بہت زیادہ زور دیا جاتا تھا چنانچہ پلاٹ میں جھول ناپسندیدہ تھا۔ واقعات کی مربوط کڑیاں اچھے پلاٹ کے لیے لازم تھیں لیکن کب تک۔ کرشن چندر کا ”دو فرلانگ لمبی سڑک“ سعادت حسن منٹو کا ”پُھندنے“ میرزا ادیب کا ”درونِ تیرگی“، غلام عباس کا ”بہروپیا“ بغیر پلاٹ کے افسانے تھے اور یہ باور کرانے کی اولین کوشش کہ پلاٹ کے بغیر بھی اچھا افسانہ لکھا جا سکتا ہے۔ اگر بغیر پلاٹ کے افسانے نہ لکھے جا چکے ہوتے تو افسانہ میں شعور کی رو ، تلازم خیال، آزاد تلازمہ اور فینٹسی کے استعمال کے تجربات بھی نہ ہوتے۔
بغیر پلاٹ کے افسانوں کا ذکر ہوا تو راشدالخیری کا ”نصیر و خدیجہ“ بھی بغیر پلاٹ کے افسانہ کی اولین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسے اردو کا پہلا افسانہ بھی قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اس میں پلاٹ، کردار، واقعہ کچھ بھی نہیں ملتا۔ یہ اڑھائی تین صفحات کا خط ہے جس میں بہن بھائی سے عدم توجہی کی شکایت کرتی ہے۔ ایسا خط جو غالباً ہزاروں بہنوں نے بھائیوں کو لکھا ہو گا اور لکھتی رہیں گی۔
ترقی پسند افسانہ نگاروں نے انسان کا کلٹ بنا کر خارجی حقیقت نگاری پر اتنا زور دیا کہ انسان کے باطن اور سائیکی کو فراموش کر دیا گیا اس کمی کو علامتی اور تجریدی افسانہ نے پورا کیا۔ اس انداز کا افسانہ اس لیے لکھنے کی سہولت حاصل ہوئی کہ شعور کی رو، تلازم خیال، آزاد تلازمہ اور فینٹسی کے باعث افسانہ کے بیانیہ کو ایسے آلات مل گئے کہ ذہن کے بحران، سائیکی کے نہاں خانہ، اعصاب کے دھمال اور روح کے حشر کی تصویر کشی آسان ہو گئی ۔ ادھر فرائیڈین تحلیل نفسی اور لاشعور کے تصور نے بھی پہلی مرتبہ یہ احساس کرایا کہ لاشعور شعور سے زیادہ قوی ہی نہیں بلکہ تخلیقات کے لیے قوی محرک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں اگر ژونگ کے اجتماعی لاشعور ، آرکی ٹائپس اور Primordial Images کو بھی شامل کر لیں تو بات قدیم ترین انسانی آباءاور تاریخ کے بعید ترین گوشوں تک جا پہنچتی ہے۔ یقینا تمام افسانہ نگار انہیں بروئے کار نہ لائیں گے تاہم اتنا تو طے ہے کہ اب افسانہ نگار وں کے پاس جدیدترین نفسی آلات موجود ہیں۔
شعور کی رو کا ذکر ہوا تو اس ضمن میں عرض ہے کہ فکشن کی تنقید میں اس اصطلاح کا استعمال عام ہے لیکن ایک خرابی یہ ہے کہ انگریزی اصطلاحات کے ناقص ترجمہ یا غلط تشریح کی وجہ سے اصطلاح اس مفہوم سے دور ہو جاتی ہے جو اس کی روح ہوتا ہے اور جس میں اس کے استعمال کا جواز مضمر ہوتا ہے۔
شعور کی رو (Stream of Conscious) کا نظریہ امریکی ماہر نفسیات ولیم جیمز کی مایہ ناز کتاب (Principles of Psychology 1890) میں پہلی مرتبہ مدون کیا گیا۔ ولیم جیمز نے دلائل سے ثابت کیا کہ انسان کا شعور ٹھوس ، ساکت، پرسکون اور جامد نہیں بلکہ یہ دریا کی موجوں کی مانند ہر وقت متحرک رہتا ہے۔ لہر کے بعد لہر کی مانند شعور میں بھی خیالات کے دھارے، سوچ کی لہریں اور تصورات کی روئیں ملتی ہیں۔ شعور کبھی بھی ساکت نہیں ہوتا بلکہ دریا کی مانند مسلسل بہاؤ میں رہتا ہے۔
ولیم جیمز نے شعور کی رو کی چار خصوصیات بیان کی ہیں:
۱۔ ہر ذہنی حالت کسی ذاتی شعور کا جزو ہوتی ہے۔
۲۔ ذاتی شعور سے وابستہ تمام ذہنی کیفیات ہر دم متغیر رہتی ہیں۔
۳۔ ذاتی شعور کی ہر حالت میں تسلسل ہوتا ہے ۔
۴۔ ذاتی شعور کی ہر حالت اشیا اور وقوعات میں ردوبدل کرنے کے باعث بعض میں تو دل چسپی ظاہر کی جاتی ہے جب کہ بعض کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
اب مندرجہ بالا کو ذہن میں رکھ کر فکشن کی تنقید میں شعور کی رو کے استعمال کو دیکھئے تو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح اس اصطلاح کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ خاص طور پر قرةالعین حیدر کے ”آگ کا دریا“ کے ضمن میں جیمز جوائس نے ULYSES میں شعور کی رو کا ماہرانہ استعمال کیا ہے۔ ناول کے اختتام پر جب مولی ہر آن خاوند کی پائنتی لیٹی ہوئی ”سوچ“ رہی ہے۔ جیمز جوائس نے اس عبارت میں نہ تو کومہ اور فل سٹاپ استعمال کیا اور نہ ہی کوئی فقرہ کیپٹل لیٹر سے شروع ہوتا ہے۔ یوں کئی صفحات کی ”سوچ“ ایک طویل پیراگراف کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ادھر ہم جب ”سوچتے“ ہیں تو شعور کی رو کا عمل مسلسل ہوتا ہے ہم پنکچویشن، پیراگرافس اور کیپٹل لیٹرز کی صورت میں نہیں ”سوچتے“ اسی لیے جیمز جوائس نے بھی کردار کی ”سوچ“ کو ذہن میں شعور کی رو کی مانند ”سیّال“ رکھا۔
جہاں تک تلازم خیال (Association of Idea) کا تعلق ہے تو اسے کارل گستاؤ ژونگ نے اعصابی خلل کے مریضوں کی علامات کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے استعمال کیا، بعد ازاں فکشن رائٹرز بھی اسے بروئے کار لائے مگر خالص صورت میں اس کا استعمال ممکن نہ تھا لہٰذا اسے داخلی خودکلامی کے لیے استعمال کیا گیا۔
تلازم خیال شعور کے مطالعہ اور شخصیت پر اس کے اثرات کے مطالعہ کا ایک انداز ہے، جس طرح چراغ سے چراغ جلتا ہے اسی طرح لاشعوری اثرات کے باعث لفظ سے خاص مفہوم وابستہ ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اپنے مزاج، دلچسپی، ذوق، نفسی کیفیات اور اعصابی تموج کے زیر اثر ایک ہی لفظ مختلف انداز میں مخالف، برعکس بلکہ متنوع تہییحات کا باعث بنے گا جیسے :
۱۔ سفید ۔ سفید چاک، تختہ سیاہ، کلاس رو م، سکول، حرامی ہیڈ ماسٹر
۲۔ سفید۔ گوری لڑکی، سفید دوپٹہ، سفید بال، سفیدی (دیوار کی)
۳۔ سفید۔ سفید چادر ، پلنگ، کمرہ، شادی، بچے
تلازم خیال کے ٹیسٹ میں ایک لفظ دے کر کہا جاتا ہے کہ اس لفظ سے جو بھی الفاظ ذہن میں آئیں، رکے اور سوچے بغیر ، انہیں بولتے جانا ہے۔ لیکن لفظ بولتے بولتے ایک مقام ایسا آتا ہے جب ذہن خالی ہو جاتا ہے اور مزید کوئی لفظ نہیں سوجھتا اور اسی سے لاشعور کی مزاحمت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اسے ذہن میں رکھ کر دیکھیں تو ہمارے کسی افسانہ نگار نے بھی تلازم خیال کو اس کی درست نفسیاتی صورت کے مطابق استعمال نہیں کیا لہٰذا ہمارے افسانہ میں خودکلامی، باطنی سوچ، تلازم خیال قرار پائی جب یہ عالم ہو تو پھر آزاد تلازمہ (Free Association) اور فینٹسی کا تو ذکر ہی کیا۔
اردو افسانہ کی صدی کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ترقی پسند ادب کی صورت میں ایسی فعال، توانا، پرمقصد تحریک ملتی ہے جس نے پہلی مرتبہ احتجاج اور بغاوت کے قرینے سکھائے۔ ترقی پسند ادیبوں نے منفی، اقدار، ٹیبوز، ظلم، جبر، غلامی، استحصال کو اہداف قرار دیا اور تمام تخلیقی اصناف کو انقلاب آشنا کر دیا۔ پاکستان میں تحریک کی جبری بندش کے باوجود بھی نظریہ کے طور پر ترقی پسندی کے تصورات ہنوز بھی کارآمد اور موثر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جب تک ظلم، جبر، استحصال، مذہبی انتہا پسندی ، جاگیرداری، بنیاد پرستی، مُلائیت اور اسی نوع کی ”منفیت“ کا چلن رہے گا اس وقت تک ترقی پسندانہ سوچ اور اس پر مبنی ردعمل بھی ہوتا رہے گا لیکن اور یہ ”لیکن“ بہت بڑی ہے کہ احتجاج اور بغاوت کے لیے اہداف مقرر اور مخصوص نہیں بلکہ ہر معاشرہ کی مخصوص صورت حال ان اہداف کا تعین کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ تاریخی، سیاسی اور عمرانی عوامل و محرکات کے زیر اثر اہداف تبدیل بھی ہو سکتے ہیں جیسے ترقی پسندوں کے روایتی ظالم جاگیردار اور استحصال کرنے والے سرمایہ دار کے مقابلہ میں آج مذہبی انتہا پسندی، اجتماعی جنون (جس کا مظاہرہ قتل و غارت گری اور آتش زنی کی صورت میں ہوتا رہتا ہے)، دہشت گردی، بنیاد پرستی خرد دشمنی، مُلائیت کہیں زیادہ خوف ناک ہیں مگر تیکنیک کی مہارت، اسلوب کی چابک دستی اور نیت کی نیکی کے باوجود بھی (بوجوہ) خوف ناک معاصر صورت حال کی تشریح اور اسباب و علل کے تجزیہ پر خود کو قادر نہیں پاتے ۔۔ نہ بھائی ہماری تو ہمت نہیں!
کہتے ہیں کہ تاریک سرنگ میں سفر کے اختتام پر روشنی کا دائرہ استقبال کر کے تاریکی میں سفر کا ”انعام“ ثابت ہوتا ہے مگر ہم جو تاریک راہوں میں مارے جا رہے ہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کس جرم کی پاداش میں مارے جا رہے ہیں۔ تاریکی میں بے سمت سفر کرنے والوں کو اختتام پر روشنی کے برعکس مزید تاریکی ہی کا انعام ملے گا۔
معافی چاہتا ہوں کہ حالات کے ڈیپریشن نے مجھے تو قنوطی بنا دیا ہے۔ یہی خون آشامی ، اجتماعی جنون، عقیدہ اور مسلک کی نفرت، بنیادی پرستی کی کانٹوں بھری فصل اور ان سب کا پیدا کردہ خوف، اس خوف کا پیدا کردہ تناؤ اور اس تناؤ کا پیدا کردہ اعصابی خلل تو یہ ہے آج کے افسانہ نگار کے لیے چیلنج اور تخلیقی تناظر۔
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق؟

Related posts

Leave a Comment